انٹرمیڈیٹ تک فری اور مینڈیٹری ایجوکیشن پر کام کام کرنا ہوگا

”بچپن سے ہی ہمیشہ بڑے خواب دیکھے کیونکہ جتنے بڑے خواب ہوں گے، کامیابیاں بھی اتنی ہی بڑی ہوں گی۔مجھے ہمیشہ یہی لگتا تھا کہ اللہ مجھ سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے۔بڑے مقاصد کے لیے محنت بھی اتنی ہی کرنی پڑتی ہیں۔ایسی خواتین جو کچھ کر کے دکھانا چاہتی ہیں وہ اپنی کاوشوں کو جاری رکھیں۔ اپنے بیانیے کے لیے لڑیں۔ایسا ممکن نہیں کہ جہاں محنت ہو وہاں کچھ حاصل نہ ہو سکے“۔ یہ کہنا ہے لاہور کالج یونیورسٹی برائے خواتین کی پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ ناز کا۔
پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ ناز یونیورسٹی ایجوکیشن میں وسیع تجربے کی حامل ہیں۔ وہ 2010 میں پروفیسر آف بائیو ٹیکنالوجی تعینات ہوئیں۔ گورنر پنجاب اور چانسلر نے 2019 میں انہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی فیکلٹی کی ڈین مقرر کیا۔ ڈاکٹر شگفتہ ناز نے لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں کلیدی عہدوں پر خدمات سر انجام دی ہیں جن میں ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ پوسٹ گریجویٹ اسٹڈیز، ڈائریکٹر اورک، سربراہ ایڈوانس ریسرچ اینڈ سٹڈی بورڈ و دیگر شامل ہیں۔ 2005 میں لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہونے سے قبل وہ نجی شعبے میں اچھی ساکھ کی فرموں کے لیے بطور سینئر بایو ٹیکنالوجسٹ کام کر چکی تھیں۔ ڈاکٹر شگفتہ ناز نے متعدد ایوارڈز بھی حاصل کر رکھے ہیں جن میں 2019 میں میریٹوریئس ایوارڈ، پاکستان سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، پی ایس ایف، اسلام آباد کی طرف سے چار مختلف برسوں میں ریسرچ اینڈ پروڈکٹیوٹی ایوارڈ، فروغ تعلیم ایوارڈ و دیگر شامل ہیں۔ وہ قومی سطح کی متعدد کمیٹیوں کی سربراہ، عہدیدار اور رکن ہیں جن میں پاکستان ایگریکلچر ریسرچ بورڈ، سوسائٹی آف پروموشن آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، پاکستان بائیو ٹیکنالوجی سوسائٹی، بائیوٹیکنالوجی ہائیر ایجوکیشن کمیشن، اسلام آباد کی قومی نصاب کمیٹی، یونیورسٹی الحاق کمیٹی، ایگزامینیشن کمیٹی، ایکوالینس کمیٹی، ڈسپلن کمیٹی ہراسمنٹ کمیٹی، پاکستان بوٹینیکل سوسائٹی، بنگلہ دیش بوٹینیکل سوسائٹی، کچن گارڈن سوسائٹی، باغ جناح ایڈوائزری کمیٹی، بائیو ٹیکنالوجی کمیٹی لاہور چیمبر آف کامرس، ہارٹیکلچر سوسائٹی، لاہور اور بائیو ٹیکنالوجی سوسائٹی شامل ہیں۔ ورکس کمیٹی کی چیئرپرسن کے طور پر انہوں نے لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں متعدد میگا پروجیکٹس کی نگرانی کی۔ ڈاکٹر شگفتہ ناز کے قومی اور بین الاقوامی ریسرچ جرنلز میں تحقیقی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ ناز کی نوائے وقت کیساتھ خصوصی گفتگو نذر قارئین ہے۔
 نوائے وقت:سوال : مغربی تعلیمی نظام کو دیکھتے ہوئے پاکستانی تعلیمی نظام میں کیا کمیاں دیکھتی ہیں؟
 پروفیسرڈاکٹر شگفتہ ناز: یو ایس اے کی ہائی سکول ایجوکیشن جسے انٹر میڈیٹ کہتے ہیں،وہاں تک تمام شہریوں کی ایجوکیشن فری ہے۔وہاں کوئی بچہ آﺅٹ آف سکول نہیں ہے۔ اگر کوئی سکول نہیں جانا چاہتا تو اسے یو ایس اے سے کہیں اور جانا پڑتا ہے۔کیونکہ ان کے قوانین سخت ہیں۔پھر جب سٹوڈنٹ ہائی سکول سے فارغ التحصیل ہو کر باہر آتے ہےں تو نوے فیصد تعداد سکلڈ ایجوکیشن کی طرف چلی جاتی ہے۔چھوٹے چھوٹے کورسز کرتے ہیں۔باقی جو دس فیصد سٹوڈنٹس رہ جاتے ہیں وہ ہائیر ایجوکیشن کی جانب جاتی ہے۔یہ ہائیر ایجوکیشن پر وہاں لاگت زیادہ آتی ہے۔ جبکہ ہائیر ایجوکیشن کا ہر طالب علم پارٹ ٹائم کام بھی کرتا ہے۔جب وہ بچہ اپنی کمائی سے تعلیم حاصل کرتا ہے تو اس کے لیے اس کی ڈگری بہت اہمیت رکھتی ہے۔ کیونکہ وہ ڈگری اس نے کام کر کے حاصل کی ہوتی ہے لہذا وہ بہت سنجیدگی سے تعلیم حاصل کرتا ہے۔ایسے ہی ایک طالب علم سے جب یہ سوال ہوا کہ اگر تمہیں کہیں اچانک جانا پڑے تو کونسی ایک چیز ساتھ لیکر جاﺅ گے۔ اس طالب علم نے جواب دیا کہ ”میری ڈگری“، کیونکہ اس کے اوپر میں نے بہت انویسٹ کیا ہے۔
دوسری اہم بات یہ کہ چونکہ وہ ہائی سکول کے بعد سے ہی تعلیم اور روزگار دونوں ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے لہذا ڈگری لینے کے بعد عملی میدان میں قدم رکھنا اس کے لیے مشکل بات نہیں رہتی۔ 
ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے کہ ہائیر ایجوکیشن تک بچہ والدین کے پیسوں سے پڑھتا ہے۔ لہذا اسے اس ڈگری کی اہمیت معلوم نہیں ہوتی۔ اور ڈگری لینے کے بعد وہ بچہ اس کنفیوژن میں ہی مبتلا رہتاہے کہ اس نے اپنے پاﺅں پر کھڑے کیسے ہونا ہے۔میں سمجھتی ہوں کہ یو ایس اے کا یہ سسٹم ہمارے یہاں رائج کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ ہمیں پرائمری ایجوکیشن پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ بنیاد ٹھیک ہوگی تو اس پر کھڑی ہانے والی عمارت مضبوط بن سکیں گی۔ہمارے 72 فیصد بچے آﺅٹ آف سکول ہیں۔ان بچوں کو کیسے سکولز تک لایا جائے اس پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اور انٹر میڈیٹ تک فری اور مینڈیٹری ایجوکیشن پر کام کام کرنا ہوگا۔
سوال: طالبات و اساتذہ کے لیے کونسے اقدامات اٹھانے جا رہی ہیں؟
 پروفیسرڈاکٹر شگفتہ ناز:پرائیوٹ سیکٹر سے جب میں پبلک سیکٹر میں آئی تو ان دونوں سسٹمز کے درمیان بڑا فرق دیکھا۔آپ یہ سمجھیں کہ پرائیوٹ سیکٹر فلائی کر رہا ہے اور پبلک سیکٹر رینگ رہا ہے۔چونکہ مین اس یونیورسٹی سے 2005 سے منسلک ہوں اور اب قدرت نے مجھے پرو وائس چانسلر بنا کر یہ موقع دیا ہے کہ اب تک جہاں جہاں خامیاں دیکھیں انہیں ٹھیک کر سکوں اور طالبات کے بہتر مستقبل کے لیے انہیں جدید سسٹم سے روشناس کرواﺅں۔ یونیورسٹی کا اہم مسئلہ امپلائز ہاﺅسنگ سوسائٹی کا قیام ہے۔ لہذا آتے ساتھ ہی ایک کمیٹی تشکیل دی۔
اس پر ہم بہت تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی کو ڈیجیٹائزڈ کرنے پر کام کر رہے ہیں۔میرا یہ خیال ہے کہ پوری یونیورسٹی کو ڈیجیٹل سسٹم پر لانا چاہیے تاکہ ہر چیز ایک کلک پر آپ کے پاس ہو۔سٹوڈنٹس اور ٹیچرز گھر بیٹھے اس سہولت سے مستفید ہوں۔طالبات کی اچھی تربیت کے لیے مینٹورنگ سیشنز کا آغاز کرچکے ہیں۔ہماری یوتھ ملکی صورتحال کے پیش نظر منفی سوچوں کے گرد پھنس چکی ہے۔ انہیں ان چیزوں سے باہر لانے کے لیے ہم ایسے الومنائی جو اپنی زندگی میں کامیاب ہیں کو بلا کر سیشنز رکھتے ہیں۔ تاکہ طالبات میں تحرک پیدا ہو۔
ٹیچرز کو بتاتی ہوں کہ آپ اپنے لیکچرز میں کوشش کریں کہ سٹوڈنٹس کو موٹیویشن دیں۔
سوال:اونٹورپرینیورشپ پر یونیورسٹی کتنا کام کر رہی ہے؟
ڈاکٹر شگفتہ ناز: چونکہ آپ جانتی ہیں کہ اب سکلڈ بیسڈ لرننگ کو دور ہے۔پبلک سیکٹر میں روزگار کے وسائل محدود ہیں۔ لہذا اب قت ہے کہ ہم اپنے سٹوڈنٹس کو سکلز دیں۔ تاکہ وہ ملک کو نئے سٹارٹ اپس دیں۔اس سلسلے میں ایچ ای سی نے ہمیں کافی مد د فراہم کی۔بچوں ے آئیڈیاز کو کمشلائز کیسے کرنا ہے اس پر ہم کام کر رہے ہیں۔ہماری کوشش ہے کہ ہم پچاس سٹارٹ اپس متعارف کروائیں۔اس سلسلے میں پی آئی ٹی کیساتھ ہم ایم اور یو سائن کر چکے ہیں۔ وہ ہمیں دو کو ہورٹس کا مینٹورشپ دیں گے۔مثلا ایک بچہ آئیڈیا لائے گا تو اسے پوری طرح سے سپورٹ کیا جائے گا تاکہ چھ مہینے بعد وہ آئیڈیا باقاعدہ طور پر ایک 
بزنس میں بدل جائے۔میرا یہ بہت بڑا مقصد ہے کہ ہم کم سے کم 50 سے 60 سٹارٹ اپس یہاں سے شروع کریں۔
https://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/lahore/2023-10-04/page-11/detail-2?fbclid=IwAR0S_q5nNa4yNz2EH_pURg7GaJdnL4WX7vpllrG6oepPEcmpWoHSi63LjA4